Thursday 7 March 2013

یہ وہ سحر تو نہیں






1947 کی بات ہے۔ پاکستان معرض وجود میں آ چکا تھا۔ فیض صاحب دہلی سے لاہور منتقل ہوئے تو نئے ملک کی حالت دیکھ کر دم بخود رہ گئے اور اپنے جذبات کو کچھ یوں بیان کیا:
یہ داغ داغ اجالا، یہ شب گزیدہ سحر
تھا انتظار جس کا، یہ وہ سحر تو نہیں
اجالا بیشک داغ داغ تھا لیکن تقسیم کے بعد شہر لاہور کی ادبی محفلوں کو چار چاند لگ گئے اور اس وقت جو ادب تخلیق کیا گیا، اس جیسا آج تک نہیں کیا جا سکا۔
وقت تبدیل ہوا۔ ابتدائی دنوں کا خمار ٹوٹا اور لاہور کی ادبی سرگرمیوں میں کمی آئی کیونکہ روزگار کے غم دلفریب ہونا شروع ہو گئے۔
وقت گزرتا گیا اور ادبی محفلیں کثیر تر ہوتی گئیں۔ طواف کو نکلے چاہنے والے، نظریں جھکا کر اور جسم و جاں بچا کے چلنے لگے۔ لبوں سے آزادی چھین لی گئی اور ’بول‘ کی صدا لگانے والے ملک بدر کر دیے گئے۔ پاک ٹی ہاؤس ٹائروں کی دکان میں تبدیل ہو گیا، کافی ہاؤس بند ہوتے گئے۔
اس جمود کے عالم میں لاہور ادبی میلے کا انعقاد ایک خوش آئند قدم تھا، اور امید ہے کہ اس طرز پر ہر برس کم از کم ایک تقریب ضرور منعقد کی جائے گی۔
تقریب کا آغاز معروف صحافی مظہر علی خان کے صاحب زادے طارق علی کی تقریر سے ہوا۔ موصوف نے دنیا بھر کے انقلابیوں کا ذکر کیا لیکن ادب سے متعلق کوئی بات کرنے سے گریز اختیار کیا۔
اسی دن کے ایک اور سیشن میں جناب نے سونامی پارٹی کی حمایت کا اعلان کیا جس پر وہاں کثیر تعداد میں موجود برگر بچوں نے خوشی کا اظہار کیا۔ ساری عمر بائیں بازو کی سیاست کا نعرہ بلند کرنے والوں کو سونامی پارٹی میں کیا خاص بات نظر آئی، علماء اس معاملے میں ابھی تک خاموش ہیں۔
ایک دانشور عزیزالحق صاحب نے ایسے لوگوں کے بارے میں کہا تھا کہ ’رہے ساری عمر یوپی کے نواب کے نواب اور سکھاتے رہے اہل پنجاب کو مزدور تحریک کے اسرار و رمو ز‘
تقریب میں ہمارا پسندیدہ سیشن پاکستانی فلموں کے بدلتے کردار سے متعلق تھا۔ ہم نے دیکھا کہ وقت ڈھلنے کے ساتھ کس طرح پاکستانی فلم سازوں، ہدایت کاروں اور لکھاریوں کی ترجیحات بدلتی رہیں، حتی کہ ایک وقت ایسا بھی آیا جب چنگیز خان کو مسلمان دکھایا گیا اور وہ ’اللہ کی رحمت کا سایہ‘ کہلایا۔
لاہور ادبی میلے سے ہمارا سب سے بڑا گلہ یہ رہا کہ تمام اہتمام ایک مخصوص طبقے کے لیے رہا، حتی کہ لاہور کے مہنگے ترین تعلیمی اداروں (جن میں سے ایک کا افتتاح برطانوی واسرائے نے کیا اور دوسرے کو برطانیہ کے گرامر سکولوں کی طرز پر قائم کیا گیا) کے طلباء پر ادبی میلے میں حاضری لازم قرار دی گئی۔
ان بچوں کی موجودگی کے باعث چند مضحکہ خیز واقعات بھی رونما ہوئے۔ ایک سیشن میں انتظار حسین صاحب نے جب دو چار منٹ اردو میں بات شروع کی تو ہال خالی ہونا شروع ہو گیا، اور یہ لازوال فقرہ سننے کو ملا :’چلو بھئی یہاں تو اب شعروشاعری شروع ہو گئی ہے‘۔ لاہور جیسے شہر میں اردو کا اس طرح جنازہ نکلتے، نہ پہلے دیکھا، نہ سنا۔
ایک موقع پر منٹو صاحب پر ہونے والے سیشن میں ان کی بھتیجی ڈاکٹر عائشہ جلال سے اصرار کیا گیا کہ گفتگو انگریزی میں کریں۔ مانا کہ بہت سے غیر ملکی مہمان بھی وہاں موجود تھے لیکن لاہور میں منعقد میلے میں منٹو پر بات اگر اردو میں نہ کی جا سکے تو یہ شرم کا مقام ہے۔
خورشید کمال عزیز صاحب، جو کے کے عزیز کے نام سے بھی جانے جاتے ہیں، اپنی کتاب ’تاریخ کا قتل‘ میں لکھ گئے کہ پنجاب کے لوگوں نے کبھی اپنی زبان کی قدر نہیں کی، پہلے اردو کی ترویج و ترقی کا بیڑہ اٹھایا تو کبھی انگریزی کی جانب راغب ہوئے، جبکہ حقیقت تو یہ ہے کہ نہ ہی اردو ہماری زبان ہے نہ ہی انگریزی۔ یہ دونوں زبانیں تو نوآبادیاتی زبانیں ہیں اور ہماری زبان تو دراصل پنجابی ہے۔
لاہور پنجاب کا دارلحکومت ہے اور یہاں منعقدہ ادبی میلے میں پنجابی پر کچھ نہ کچھ بات ضرور ہونی چاہیے تھی، لیکن جس طرز کا طبقہ بلایا گیا تھا ان کے ہاں پنجابی صرف انکے ڈرائیور حضرات ہی بولتے اور سمجھتے ہیں۔ وارث شاہ، بلھے شاہ، بابا فرید، منیر نیازی، استاد دامن اور امرتا پریتم کی ارواح کو اس طرح کی زیادتی پر بہت تکلیف پہنچی ہوگی۔
اردو پر دو عدد سیشن ہوئے جن میں سامعین تو ایک طرف، چند مقررین نے ہی تشریف لانا گوارا نہیں کیا۔ منٹو اور فیض کا تذکرہ تو بہت ہوا لیکن یار لوگ تو اب صاف کہتے ہیں کہ فیض اور منٹو ادب اور جدوجہد سے زیادہ فیشن کی علامات بن چکے ہیں، یا بنا دیے گئے ہیں۔
ہمیں انگریزی لکھنے والوں سے کوئی پرخاش نہیں مگر جس ملک میں ایک آبادی کی ایک بڑی تعداد آپ کی لکھائی نہ پڑھ سکے، وہاں آپ انگریز ی کی بجائے ولندیزی زبان بھی لکھ لیں تو کچھ مضائقہ نہیں۔ ہاں اگر آپ نے باہر کی دنیا کے لیے لکھنا ہے تو بصد شوق لکھیے، خیالات کسی ایک زبان کی میراث نہیں ہوتے۔
ادبی میلے کے خو ش آئند پہلووں میں بچوں اور نوجوان لکھاریوں کے لیے کیے گئے سیشن شامل تھے۔ اسی طرح ادب میں طوائف کے کردار پر ایک عمدہ سیشن ہوا۔ ادب اور خواتین پر بھی ایک سیشن رکھا گیا جس میں پاکستان میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خواتین مثلاََ عمیرہ احمد کو مدعو ہی نہیں کیا گیا۔ میلے میں شریک ایک صاحب کے مطابق، جو ایک ہسپتال کی ڈسپنسری میں کام کرتے ہیں، میلے کا ماحول اور اس کے شرکا ء کسی دوسرے سیارے کے مکین لگ رہے تھے۔
کے کے عزیز نے پنجابیوں کی ایک اور صفت بھی بیان کی تھی، یعنی ’سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے‘ لیکن اپنے علاقے اور اس کے لوگوں کی ہمیں کوئی خاص پرواہ نہیں۔
قابل عزت صحافی اور قلم کار محمد حنیف صاحب نے گم شدہ بلوچوں کا نوحہ پڑھا جو قابل داد ہے لیکن ان ہزاروں ’پنجابیوں‘ کا ذکر تک نہیں کیا جن کا واحد جرم صرف یہ تھا کہ وہ پنجابی ہونے کے باوجود بلوچستان میں رہائش پذیر تھے، ان ہزاروں معصوموں کا نوحہ کون لکھے گا؟
بہرحال حنیف صاحب نے کم از کم فوج کے پنجابی ہونے کی غلط فہمی اپنی آزاد نظم کے ذریعے ضرور دور کی اور کہا کہ ’نواب نو روز خان کو جس کتاب پر ہاتھ رکھ کر جھوٹا وعدہ کیا گیا، وہ کتاب پنجابی زبان میں نہیں تھی، اس کے بیٹوں کو جس پھانسی کی رسی سے لٹکایا گیا وہ رسی اچھرہ سے نہیں بھیجی گئی تھی، وہ راکٹ جو اکبر بگٹی کو لگا کوئی سیالکوٹ سے تیار ہو کر نہیں گیا تھا۔ فوج نہ سندھی ہے، نہ بلوچی، نہ پٹھان، نہ پنجابی، فوج تو بس فوج ہوتی ہے‘
ان تمام تلخ حقیقتوں کے باوجود ہم اپنی کشت ویراں سے ناامید نہیں اور توقع کرتے ہیں کہ آئندہ سالوں میں ادبی میلوں کے انعقاد میں بہتری دیکھنے کو ملے گی اور اجالا مزید داغ داغ نہیں رہے گا۔









Friday 1 March 2013

ثنا خوان تقدیس مشرق کہاں ہیں؟

چند روز قبل ایک سعودی باشندے فیہان الغامدی نے اپنی پانچ سالہ بیٹی کے ساتھ جو سلوک کیا، وہ نہ صرف ناقابلِ بیان بلکہ ناقابلِ فراموش بھی ہے۔ اسلام اور شریعت کے نام لیواؤں نے البتہ عدل کی مثال قائم کرنے کے بجائے بیٹیاں زمین میں گاڑنے والے معاشرے کی یاد تازہ کردی اور موصوف کو ایک کثیر سی قید اور چند سکے ادا کرنے کی سزا سنائی گئی۔ ابنِ تیمیہ کی تعلیمات پر قائم ریاست سے ہمیں یہی توقع تھی۔

اس واقع سے یہ بات تو واضح ہوگئی کہ سعودی عرب میں چوری کرنے پر تو آپ کے ہاتھ کاٹ دیے جائیں گے، نشہ آور چیزوں کی درآمد پر آپ کا سر قلم کیا جائے گا، لیکن اپنی بیٹی یا کسی سری لنکن آیا کو جان سے مار کر آپ سرخرو ہوسکتے ہیں۔
انسان چاند تک پہنچ گیا لیکن سعودی عرب میں آج تک عورتیں قانونی طور پر گاڑی نہیں چلا سکتیں، کیونکہ سعودی ابھی تک تیرھویں صدی میں رہ رہے ہیں۔

حال ہی میں سعودی حکومت نے حاتم طائی کی قبر پر لات مارتے ہوئے خواتین کو فارمیسی کی دکانوں پر کام کرنے کی اجازت دی ہے۔ یہ خبر پڑھنے کے بعد سے ہم حیرت میں مبتلا ہیں کہ آخر ابھی تک سعودیوں نے حاتم طائی کی قبر منہدم کیوں نہیں کی؟ ابنِ تیمیہ کی روح تڑپ رہی ہوگی۔
تمام عالم میں مسلم اُمّہ کے نام کی ڈگڈگی بجانے والے، اپنے ملک کی شہریت تک تو دینا گوارا نہیں کرتے بلکہ اُمّہ کے دیگر ٹھیکے داروں کے لیے ڈرون طیارے بھی ان کی سرزمین سے اُڑائے جاتے رہے ہیں۔ ایمان سے بتائیے، اگر یہ کھلا تضاد نہیں تو کیا ہے؟ خواتین کی ڈرائیونگ سے تو یقینا ایمان خطرے میں ہے لیکن شام، بحرین، یمن اور پاکستان میں دہشت گردی کی کھلم کھلا ترویج کس شرعی حکم کے مطابق ہے؟

ملک اسحاق اور حافظ سعید کو سالانہ بنیادوں پر ملنے والا ’چندہ‘ جن نیک کاموں میں استعمال ہو رہا ہے، اس کے متعلق سوال کیوں نہیں اُٹھایا جاتا؟ ہندوستان اور جنوب ایشائی ممالک سے جو لڑکیاں غیر قانونی طور پر سعودی عرب لائی جاتی ہیں، اُن کی عصمت اور غیرت کا خیال ثنا خوانِ تقدیسِ مشرق کو کیوں نہیں آتا؟
ہمارے معاشرے میں سعودی عرب کو کچھ زیادہ ہی عزت سے نوازا جاتا ہے۔ اس عزت افزائی کی ایک وجہ تو وہاں پر ہمارے مقدس مقامات کی موجودگی ہے، اس کی ایک وجہ ہمارے وہ عزیز اقربا بھی ہیں جو 80 کی دہائی سے وہاں دن رات کی محنت کے بعد ریال (اور چند کرم فرماؤں کے مطابق شدت پسندی کے جراثیم) اپنے گھر والوں کو ارسال کر رہے ہیں۔
اس عزت اور عقیدت کے مارے ہم عقل اور استدلال کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دیتے ہیں۔ تاریخ کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ موجودہ حکمران خاندان کی حکمرانی 1925 سے پہلے محض نجد کے علاقے تک محیط تھی اور پچھلے چودہ سو سال میں کبھی بھی انہوں نے مقامات مقدسہ پر راج نہیں کیا۔ خلافت عثمانیہ کی بندر بانٹ کے بعد انگریزوں کی حمایت اور امداد کے بل بوتے پر جزیرہ نما عرب پہ قبضہ کرنے والے آج خود کو ’خادمین حرمین شریفین‘ کہتے ہیں۔
بات چل ہی نکلی ہے تو لگے ہاتھوں اِبن تیمیہ صاحب کی کہانی بھی سُن لیجیے۔ تُرکی کے ایک گاؤں حران سے تعلق رکھنے والے تقی الدین ابن تیمیہ نے سلف یعنی ابتدائی دور کے مسلمانوں کے اعمال کو شریعت سمجھنے کے لیے ایک معیار قرار دیا۔
قادریہ سلسلے سے تعلق رکھنے والے ابن تیمیہ نہ صرف اہلِ تشیع کے سخت مخالف تھے بلکہ مزاروں کی زیارت کرنے کو بھی شرک سمجھتے تھے۔ انہوں نے پہلی دفعہ قانونی طور پر فوجی عدالتوں کو گواہی کے بغیر یک طرفہ طور پر سزا ئیں سنانے کا اختیار دیا۔
علاوہ ازیں، حالت جنگ میں دوسرے مسلمانوں کو قتل کرنے کی اجازت بھی جناب نے عطا کی (ان فتاویٰ کو موجودہ دور کے تکفیری آج تک استعمال کر رہے ہیں)۔ ابو غریب اور گوانتامو پر اعتراض کرنے والے نہیں جانتے کہ قید کے دوران تشدد کے حق میں قانونی توجیح تاریخ میں پہلی دفعہ ابن تیمیہ کے خاص شاگرد ابن قائم نے پیش کی۔ سن 1326 میں ابن تیمیہ کو مزار پرستی کے خلاف آواز بلند کرنے پر قید میں ڈال دیا گیا اور دو سال بعد قید کے دوران ہی انکا انتقال ہوا۔ وفات کے بعد دمشق میں واقع ان کے مزار پر کئی صدیوں تک زائرین کا تانتا بندھا رہا۔
ہماری سعودی عرب یا اس کے حکمرانوں سے کوئی ذاتی پرخاش نہیں، مجھ عاجز کی تو آپ سے محض یہ التجا ہے کہ براہ کرم اپنے گریبان پر نظر ڈالیں اور عقیدت کے بھنور سے باہر نکل کر حالات و واقعات پر نظر دوڑائیں۔
انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ جس طرح عافیہ صدیقی کی سزا پر واویلا مچایا گیا ویسے ہی اس پانچ سالہ معصوم بچی پر کئے گئے ظلم کے خلاف آواز اٹھائی جائے۔



گورکھ دھندا

ولی رضا نصر امریکہ میں ایران اور مشرقِ وسطی سے متعلق بین الاقوامی امور کے استاد ہیں۔ ان کی دو ہزار نو میں تحریر شدہ کتاب ’اسلامی سرمایہ داری کا عروج‘ میں ولی نصر صاحب کا موقف تھا کہ مسلمان ممالک میں کاروباری طبقے کے پاس پہلے کی نسبت زیادہ سیاسی طاقت موجود ہے اور اس طاقت کو استعمال کر کے انتہا پسندی کے عفریت کو شکست دی جا سکتی ہے۔

اس موقف کو واضح کرنے کے لیے انہوں نے دبئی، ملایشیا، ترکی، ایران اور ابوظہبی کی مثالیں پیش کی ہیں۔ ظاہراَ تو یہ بات معنی طلب لگتی ہے لیکن اس نظریے میں کئی سقم پائے جاتے ہیں۔ عموماَ کسی بھی ملک کا کاروباری طبقہ ملکی حالات میں امن اور تواتر چاہتا ہے کیونکہ امن کے بغیر تجارت ممکن نہیں ہوتی۔
پاکستان کے معاملے میں البتہ گنگا ذرا اُلٹی بہتی ہے، چنانچہ شدت پسندی اور انتہا پسندی کو فروغ دینے میں تاجر برادری کا بھرپور حصہ ہے۔ نوے کی دہائی میں کشمیر ی ’مجاہدین‘ کے لیے چندہ اکٹھا کرنا ہو یا ناموس رسالت کے نام پر ملک گیر ہڑتال کرنی ہو، پاکستان کی تاجر برادری ہمیشہ صفِ اوّل میں رہی ہے۔ یہاں اس امر کی وضاحت ضروری ہے کہ تاجر طبقے سے ہماری مراد درمیانی سطح کے کاروباری حضرات ہیں، بڑے بڑے کارخانوں کے مالکان اور کریانہ فروش نہیں.
ہمیں اپنی تاجر برادری کے کچھ بنیادی تضادات کو سمجھنے میں اکثر دشواری پیش آتی ہے۔ چور بازاری، ذخیرہ اندوزی اور ملاوٹ میں تو کوئی کسر نہیں چھوڑی جاتی لیکن نماز کا وقفہ بہرحال لازم ہے۔ اپنے ملازمین کی تنخواہ بڑھانے کے خیال سے ہی ہول اْٹھتا ہے لیکن مساجد کے لیے چندہ دینے میں کبھی بْخل سے کام نہیں لیا۔ حکومت کو ٹیکس دینا گناہِ کبیرہ سمجھا جاتا ہے مگر ’مجاہدین‘ کے لیے جان بھی حاضر ہے۔
کتاب پنجابی طالبان کے لکھاری مجاہد حسین کے مطابق سن دو ہزار دو میں لشکرِ طیبہ کو روزانہ لگ بھگ دو کروڑ چندہ مل رہا تھا۔ یہ چندہ میرے اور آپ کی ریز گاری سے نہیں بلکہ تاجر برادری کی فضیلت سے اکٹھا ہو رہا تھا۔ یاد رہے کہ یہ وہی تاجر طبقہ ہے جس نے چند سال قبل ویلیو ایڈڈ ٹیکس VAT کے نفاذ کے خلاف کہرام برپا کردیا تھا۔ امریکی جھنڈوں کو ہفتہ وار آگ لگانے والے بیوپاری نیٹو کے ٹرکوں سے لُوٹا ہوا مال برسرِعام فروخت کرتے ہیں۔
چند احباب کے خیال میں پنجاب کے تاجر باقی صوبوں کے کاروباری حضرات سے زیادہ بنیاد پرست ہیں۔ پنجاب کا تاجر پنجابی شاؤنزم یعنی بالادستی کا علم بردار ضرور ہے مگر یہ تصور کرنا محض خام خیالی ہے کہ کراچی اور پشاور کے تاجر کوئی دودھ میں دھلے ہوئے ہیں، وہ بھی اِسی گھِن چکر کا حصہ ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان کا تاجر طبقہ انتہا پسندی کی پشت پناہی میں منفرد نہیں اور ایسی مثالیں ہمیں ہمسایہ ممالک میں بھی دیکھنے کو ملتی ہیں۔ ہندوستان میں ہندو مہا سبھائی تنظیموں کو ہمیشہ ’بازار‘ کی پشت پناہی حاصل رہی ہے۔ ایران میں انقلاب کے بعد مذہبی راہنماؤں کے عروج اور بائیں بازو کی جماعتوں کے زوال میں کاروباری طبقے کی مرضی شامل تھی۔
تاریخ دان جناب حسن جعفر زیدی کے مطابق انگریز کے دور میں وسطی اور بالائی پنجاب میں منڈیوں کے ارد گرد شہر بسائے گئے اور ان شہروں کے تاجر طبقے نے پاکستان بننے کے بعد کے بگاڑ میں نمایاں کردار ادا کیا۔ لاہور سے شائع ہونے والا ایک اخبار، جس نے نہ صرف پاکستان کو نظریاتی ریاست بنانے کا ٹھیکہ اٹھایا بلکہ غیر جمہوری اقدام کو پروان چڑھانے میں بھی مہارت حاصل کی، ہمیشہ سے کاروباری طبقے کے مفادات کا ترجمان اور محافظ رہا ہے۔

خدا لگتی تو یہ ہے کہ بنیاد پرستی پاکستان کے بالائی یا زیریں طبقے کا مسئلہ نہیں بلکہ ہمارے نو دولتی طبقے کا پھیلایا ہوا ناسُور ہے۔ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے ہمیں پہلے اس گورکھ دھندے کو سمجھنا ہو گا اور تب ہی ہم کسی قسم کے حل تک پہنچ سکتے ہیں۔